Aisa Koi Mehboob Na Hoga Na Kahin Hai

ایسا کوئی محبوب نہ ہوگا نہ کہیں ہے
بیٹھا ہے چٹائی پہ مگر عرش نشیں ہے
ملتا نہیں کیا کیا دوجہاں کو تیرے در سے
اک لفظ “نہیں“ ہے کہ ترے لب پہ نہیں ہے
تو چاہے تو ہر شب ہو مثال شب اسری
تیرے لیے دو چار قدم عرش بریں ہے
ہر اک کو میسر کہاں اس در کی غلامی
اس در کا تو دربان بھی جبریل امیں ہے
رکتے ہیں وہیں جاکے قدم اہل نظر کے
اس کوچے سے آگے نہ زماں ہے نہ زمیں ہے
اے شاہ زمن اپنی زیارت کا شرف دے
بے چین ہیں آنکھیں میری بے تاب جبیں ہیں
ہیں تیرے ثناء خوانوں میں مرسل بھی نبی بھی
کونین تیرے زیر اثر زیر نگیں ہے
دل گریہ کناں اور نظر سوئے مدینہ
اعظم تیرا اندازِ طلب کتنا حسیں ہے