Ilhaam Ki Rim Jhim Kahin Bakhshish Ki Ghata Hai

الہام کی رم جھم ، کہیں بخشش کی گھٹا ہے
یہ دل کا نگر ہے کہ مدینے کی فضا ہے
سانسوں میں مہکتی ہیں مناجات کی کلیاں
کلیوں کے کٹوروں میں تیرا نام لکھا ہے
گلیوں میں اترتی ہیں ملائک کی قطاریں
احساس کی بستی میں عجب جشن بپا ہے
ہے “قریہ ادراک” منور تیرے دم سے
ہر ساعتِ خوش بخت جہاں نغمہ سرا ہے
اب کون حدِ حُسنِ طلب سوچ سکے گا
کونین کی وسعت تو تہہ دستِ دعا ہے
ہے تیری کسک میں بھی دھمک حشر کے دن کی
اور یوں کہ میرا قریہء جاں گونج اٹھا ہے
آیات کے جھرمٹ میں ترے نام کی مسند
لفظوں کی انگھوٹھی میں نگینہ سا جڑا ہے
اک بار تیرا نقش قدم چوم لیا تھا
سو بار فلک شکر کے سجدے میں جھکا ہے
“یٰسین” ترے اسمِ گرامی کا ضمیمہ
ہے “ن” تیری مدح ، “قلم” تیری ثناء ہے
“والّیل” ترے گیسوئے رحمت کا تراشہ
“والعصر” تیری نیم نگاہی کی ادا ہے
“زم زم” تیرے آئینِ سخاوت کی گواہی
“کوثر” ترا سرنامہء دستورِ عطا ہے
سورج کو ابھرنے نہیں دیتا ترا “حبشی”
بے ذر کو “ابو ذر” تری بخشش نے کیا ہے
اترے گا کہاں تک کوئی آیات کی تہہ میں
“قرآں” تری خاطر ابھی مصروفِ ثناء ہے
اب اور بیاں کیا ہو کسی سے تری مدحت
یہ کم تو نہیں ہے کہ تو محبوب خدا ہے
محشر میں ثناء خوان ترے یوں تو بہت ہیں
صد شکر میرا نام تجھے یاد رہا ہے
اے گنبدِ خضراء کے مکیں ! میری مدد کر
یا پھر یہ بتا کون میرا تیرے سواء ہے
بخشش تیری آنکھوں کی طرف دیکھ رہی ہے
“محسن” تیرے دربار میں چپ چاپ کھڑا ہے